Monday, December 8, 2014

کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

اب تک فقط جمود ہی لکھا گیا – وہ الفاظ لکھے ہی نہیں گئے جنکا لکھا جانا واجب تھا – ان حالات کا تجزیہ ہی نہیں کیا گیا جو وقت کے مقابل آئینہ بن کر ہمیں ایک خونی مستقبل کی تصویر دکھا رہے تھے – فقط اوراق سیاہ کئے گئے اور حاشیہ نگاری کی گئی- کچھ اداروں کی اٹھتے بیٹھتے تضحیک کی گئی اور دیگر کے اوپر وقار کا لیبل لگا کے انہیں سلامتی کی نگہبانی سونپ دی گئی-
رہنے دیجئے صاحب! جس طرح کے تجزیے ہمارے ماہرین کرتے ہیں کوئی اور کیا خاک کرتے ہونگے- کسی کو جناح کی تقریر ایک مخصوص اخبار میں نہیں مل پاتی تو وہ تقریر کے وجود کا ہی منکر ہو جاتا ہے، اور کوئی زمانے کے خود ساختہ عارف کے ہجرے میں ہوئی باتوں کو بنیاد بنا کر عالمی دنیا کے عروج و زوال کی پیش گوئی کرتا پھرتا ہے–
غضب خدا کا ہمیں دیکھتی آنکھیں اور سنتے کان بخشے ہی کیوں گئے!؟
ظلم یہ نہیں کہ آبادی کے آدھے سے زیادہ حصے کو تعلیم تک رسائی نہیں- ستم یہ ہے کہ جن تک تعلیم پہنچی انکا بھی کچھ نہیں بگڑا! –
آخر جنید حفیظ پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام لگانے والے یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ ہی تو تھے- اب اس ملک میں دفاعی تجزیہ کاری غزوۂ ہند والے کے پاس گروی ہے اور سیاسی مباحثوں کی ذمہ داری مشرق کی جانب سے سیاہ پگڑی پہنے دنیا کو مغلوب بنانے کی نوید دینے والے سی ایس پی فیم کے قدموں تلے سسک رہی ہے–
ہمارے جون ایلیا نےبہت پہلے فرمایا تھا کہ؛
"کہیں ایسے لوگ ہیں جنہیں پڑھنا چاہیے مگر وہ لکھ رہے ہیں"

پر حضرت لکھنے والے بھلا کیوں پڑھنے لگے- جہاں جذبات بکتے ہوں وہاں عقلی دلیل بھلا کس کام کا؟ اور ویسے بھی دل کی دنیا میں عقل کی اوقات ہی کیا ہے؟ آخر کو بڑے حکیم صاحب نے بھی تو عقل کو لب بام تماشہ دیکھنے کا حقدار قرار دیا تھا- بھلا اسلاف کی تعلیمات سے بھی کوئی روگردانی کر سکتا ہے؟
ایک صاحب "کھرا سچ" کے نام سے مسلسل لوگوں کے حلق میں "جھوٹا سچ" انڈیل رہے ہیں- اور اس شدت کے ساتھ کہ اردو صحافت کے زیرک استاد محترم رضا علی عابدی کو اپنے فیس بک پہ یہ لکھنا پڑا کہ "اب تو اس مستقل جھوٹ سے متلی ہونے لگی ہے"
دنیا اخبار میں لکھنے والے ایک حضرت کے مطابق جنسی بے راہ روی اور جنسی زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ بلوغت کے بعد شادی میں تاخیر ہے– موصوف کی تجویز کے مطابق ادھر لڑکا لڑکی بالغ ہوں ادھر انکی شادی کی جانی چاہیے- نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری–
موصوف نے "برگر آنٹیوں" کی سرپرستی میں چلنے والی این-جی –اوز کو اس فحاشی اور اسکے نتیجے میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کا ذمہ دار ٹھرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی–
اب کوئی انہیں کیسے یہ سمجھاۓ کہ "قبلہ اکثر جنسی زیادتیوں میں شادی شدہ مرد ہی ملوث ہوتے ہیں"!
موصوف نے اپنے کالم میں کم عمری میں شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو بھی این-جی–اوز اور سیکولر (رائج الزمانہ تعریف کافر) اذہان کی اختراع قرار دیا ہے-
ہمارے اخباروں میں شدت پسندی کی حمایت اور مخالفت میں لکھے جانے والے کالموں کو ایک ہی قسم کی جگہ ملتی ہے– اور یہ سب کچھ متوازن صحافت کے نام پر کیا جا رہا ہے-
اسکی ایک مثال جنگ اخبار ہے جہاں ایاز امیر اور انصار عباسی ایک ہی صف میں کھڑے نظر اتے ہیں– پچھلے دنوں اخبار کے ایڈیٹوریل صفحے کے ایڈیٹر سہیل وڑایچ نے اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے اس پالیسی کی حمایت کی تھی–
گویا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے اخبار قتل کی مذمت اور ترغیب دونوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے ہیں– آسکر وائلڈ نے کہا تھا؛
"کم علموں کی آراء کو وقعت دیکر اخبار ہمیں معاشرے کی جہالت سے روشناس کرواتے ہیں"
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم دنیا کے مصائب میں اضافے کا سبب بنتے جا رہے ہیں– پہلے ہمارے جہادی اپنی بندوقیں لے کر دوسرے ممالک پہنچ جاتے تھے- اب بندوقوں کے ساتھ ساتھ پولیو کے وائرس بھی لیکر گھس رہے ہیں–
انسانی ترقی کے تمام تر اعشاریوں میں ہم آخری لکیروں کے درمیان رینگ رہے ہیں- ہم اپنے بہترین دماغوں کو ہلاک اور بدترین دماغوں کو آزادی بخشتے ہیں-
غنڈہ راج نامی ایک ہندوستانی فلم میں انسپکٹر کا کردار نبھانے والے امریش پوری سے سپاہی پوچھتے ہیں کہ سر گلی کے کتے ہمیشہ ہم پولیس والوں پہ ہی کیوں بھونکتے ہیں؟
یہ بات اب ہمیں خود سے اور اپنے انسپکٹروں سے پوچھنی چاہیے کہ ساری دنیا ہم سی ہی کیوں تنگ ہے؟ آخر ہر مسئلے کی جڑ ہمارے ہاں سے ہی کیوں برامد ہوتی ہے!!؟؟

(Originally Published here)

پاکستان کے مداری

جاوید چودھری پاکستان کے اردو صحافتی حلقوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا صحافی ہیں۔ فیس بک پیج پر ان کے چاہنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔جو واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نگار ہیں۔
چوہدری صاحب اسلامی نظام حیات کے داعی ہیں اور اس کے مساوات اور برابری کے زریں اصولوں کی ترویج کرتے ہیں ۔ جب بھی یورپ جاتے ہیں تو وہاں کی ترقی کو اسلا می نظام کا مرہون منت قرار دیکر مسلمانوں کی زبوں حالی پر آنسو بہاتے ہیں اور اس شعرکی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کویورپ میں ، تو دل ہوتا ہے سیپارہ

موصوف کے مطابق انہوں نے چودہ سو کی نوکری سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر ایک اخبار میں کالم لکھنے لگے۔ کالم لکھنے سے انہیں اتنا فائدہ ہوا کہ انہوں نےاپنے ایک بھائی کے لیے کمپنی کھول دی ۔ دوسرے سال موصوف نے دوسرے بھائی کےلیے بھی ایک کمپنی کی داغ بیل ڈال دی۔ دونوں بھائیوں کو کمپنی سونپنے کے بعد جناب دوبارہ کالم نگاری میں مصروف ہوگئے اور تاحال یہی شغل فرما رہے ہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا کالم نگاری سے اتنا پیسہ کمایا جا سکتا ہے کہ دو بھائیوں کے لئے کمپنی کھولی جا سکے ؟ یہی چوہدری صاحب اپنے ٹی وی شو زمیں سیاستدانوں کے اس بات پر لتے لیتے ہیں کہ وہ میریٹ ہوٹل میں قیام کرتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال وہ مڈبھیڑ ہے جو ان کی سینیٹر فیصل رضا عابدی سے ہوئی۔ چوہدری صاحب کے اس اعتراض پر پروگرام کے دوران عابدی نےانہیں مخاطب کرتے ہوۓ کہا “تم خود تو پچاس ہزار کی ٹائی پہنتے ہو اور مجھ سے میرے خرچے کا حساب مانگتے ہو ” ایک صاحب اگر کالم نگاری کر کے دو بھائیوں کے لئے کمپنی کھول سکتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک سیاستدان سیاست کرکے میریٹ ہوٹل میں قیام کر سکے اور ایک آدھ کمپنی کھول کے اس کا سربراہ بن جائے؟
موصوف طالبان کے کٹر حامیوں میں سے ہیں اور اوریا مقبول جان کی طرح پانچ سالہ طالبانی حکومت کو افغانستان کے سنہری ادوار میں شمار کرتے ہیں – موصوف ہر وقت قوم کے شاہینوں کو اخلاقیات کا درس دیتے رہتے ہیں ۔یہی اخلاقیات کے مبلغ کچھ عرصہ قبل اپنے ٹی وی کے دفترمیں اپنے ایک ساتھی اینکر پر بندوق لے کر حملہ آور ہوئے۔ اگرچہ یہ واقعہ پریس میں رپورٹ نہیں ہوا مگر کل تک پروگرام میں ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل نے اس بات پر چودھری کی خوب کلاس لے لی اور ان سے کہا کہ اخلاقیات کا جو سبق وہ دوسروں کو دے رہے ہیں وہ خود کو بھی اس سے بالاتر نہ سمجھیں
موصوف نے حال ہی میں ایک پروگرام مشرف کے کیسوں سے بری ہونے کے حوالے سے کیا – حیرت انگیز طور پر چودھری نے اپنے پروگرام میں مولانا عبدالعزیز کو مدعو کیا اور مولانا صاحب سے مشرف کے مستقبل پرتبصرے لیے۔موصوف کی علمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی پروگرام میں مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے یہ جھوٹا بیان داغ دیا کہ ستر کی دہائی میں جب خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تھا تو پاکستان آرمی کے تب کے بریگیڈیر مشرف نے خانۂ خدا کو قابضین سے چھڑوایا ۔ چودھری صاحب نے اس بیان پر سبحان اللہ کہنے کے بعد مشرف کو ایک اسلامی ہیرو قرار دیا اور مختصر سی بریک پر چلےگئے۔ وہ تو بھلا ہوا کہ بریک سے واپسی پر پاکستان آرمی کے ہی ایک اور ریٹائرڈ افسر نے اس واقعے کی تردید کر کے چودھری صاحب اور قصوری کی جہالت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
موصوف سائنس پر بھی بھرپور تبصرے فرماتے رہتے ہیں اور یورپ کی ایجادات و افکار کو مسلمانوں کی ذہنی کاوشوں کا چربہ قرار دیتے ہیں ۔ اپنے ایک آرٹیکل میں موصوف نے نیوٹن کے عمل اور ردعمل کے قانون کی جڑیں افغانستان میں پی جانے والی قہوہ اور اس کے بعد آنے والے پیشاپ میں ڈھونڈ نکالیں ۔اس آرٹیکل میں جناب لکھتے ہیں “نیوٹن زندگی بھر یہ حقیقت فزکس کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر افغان نیوٹن کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل نہ صرف اس حقیقت سے واقف ہو چکے تھے بلکہ یہ پیشاپ کو جواب چائے کا نام دیکر نیوٹن سے آگے نکل گئے ” ہمیں اس بات پر کسی قسم کا تعجب نہیں ہوتا جب مسلمان اس قسم کے دانشوروں کو پڑھ کر تمام ایجادات کو مسلمانوں کی مہربانی سمجھتے ہیں ۔
چوہدری صاحب شدّت پسندی اور جدّت پسندی میں حسین امتزاج پیدا کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے- موصوف نے حال ہی میں ملالہ پر ایک آرٹیکل لکھ ڈالا ۔ آرٹیکل میں موصوف نے  قادیانیوں کو پاکستان میں  مساوی شہری حقوق حاصل ہونے کا انکشافی دعویٰ کیا، جبکہ اسی آرٹیکل کے شروع میں ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی اور آئینی طور پر غیرمسلم ہونے کا طعنہ بھی دے لیا، اور ان کی ناقدری ہونے پر اپنے لوگوں کی علم دشمنی کا ماتم بھی کر لیا، اور یورپ کی علم دوستی اور جوہر شناسی کے گن گانے لگے۔
جاوید چودھری ، انصار عباسی، اوریا مقبول جان اور اس قبیل کے دوسرے خود ساختہ دانشور ہی اس ملک میں پھیلی کئی ایک بیماریوں کے متعدی جراثیم ہیں ۔یہ لوگ لاکھوں جوانوں کے اذہان کی پراگندگی کے ذمہ دار بن رہے ہیں۔شاید انہی
لوگوں کے بارے میں خلیل جبران نے کہا تھا “افسوس اس قوم پر جس کا فلسفی مداری ہو”۔

(Originally Published here)