Thursday, January 29, 2015

فتوے ، فتنے اور جدیدیت


گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین محترم مولانا شیرانی نے یہ بیان داغ ڈالا کہ کوئی بھی مسلمان مرد اپنی بیوی سے پوچھے بنا اپنی مرضی سے دوسری شادی کرنے کے جملہ حقوق محفوظ رکھتا ہے ، موصوف اس سے پہلےریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بطور شہادت ماننے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔زرداری حکومت میں مفاہمتی سیاست کی پالیسی کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین منتخب ہونے والےپچاسی سالہ مولانا محمد احمد خان شیرانی جمعیت علما اسلام فضل الرحمن گروپ کے اہم سیاسی رہنما ہیں جو بلوچستان میں اپنی پارٹی کے صوبائی صدر اور سینٹر بھی ہیں ۔مولانا کےچیئرمین منتخب ہونے میں ان کے علمیت سے زیادہ ان کے سیاسی عمل دخل کا کردار ہے۔
23ستمبر 2013 کو مولانا صاحب اپنے ایک بیان میں توہین رسالت کے موجودہ قوانین میں موجود نقائص کے خاتمے کی مخالفت بھی کر چکے ہیں ، پاکستان میں توہین رسالت کا قانون غیر مسلموں کے خلاف بدلے کے قانون کے طور پر استعمال ہوتارہا ہے، ابھی چند روزپہلے ہی ایک حاملہ خاتون اور اسکے شوہر کو مبینہ توہین قران کے کیس میں اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا دیا گیا ۔
سعودی مفتی اعظم کا ‘ٹویٹر کو حرام قرار دینے کا فتوی’ ، ایران میں ریحانہ جباری کی پھانسی اور پاکستان میں مولانا شیرانی کے بیانات مسلم دنیا کے قدامت پسند مذہبی جمود کی نشاندہی کے لیے کافی ہیں ۔
6 نومبر2013کو مولانا نے کلوننگ اور جنس میں تبدیلی کو حرام قرار دیا ۔ جدیدیت کے حوالے سے مولانا نے فرمایا کہ اسے اسلام کے مطابق ہونا چا ہیے ۔اب یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے کہ جدیدیت کو اسلامی سانچے میں کیسے ڈھالا جائے اور اسکے بنیادی لوازم کیا ہوں ؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا جدیدیت کو فرسودہ مذہبی تشریحات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت یاہے یا پھر مولانا شیرانی جیسے علماء کو جدید دنیا کے اصولوں کے مطابق اپنے انداز فکر میں تبدیلی لانا پڑےگی ؟ امید ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے محترم مولانا اس مسئلے پر بھی کسی دن تفصیلاً روشنی ڈال کر اہل ایمان کی ذہنی کشمکش دور فرما ئیں گے ۔
جدیدیت کے موضوع پر کوئی فتویٰ دینے سے پہلے شاید مولانا صاحب کے لیے ویٹیکن میں ہونے والی عیسائی مذہبی رہنماؤں کےحالیہ اجلاس کی روداد پڑھنا بھی ضروری ہے۔ موجودہ پوپ کی جانب سے بلائے جانے والے اس اجلاس کا مقصد بائبل کے اندر موجود ان احکامات پہ غور کرنا تھا جن پر برطانوی عوام اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں – بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کئی والدین یہ سمجھتے ہیں کہ عیسائیت کی تعلیمات انکی خاندانی زندگیوں پر منفی اثرات ڈال رہی ہیں ۔اسی تشویش کو مدنظر رکھ کرپوپ نے پادریوں کا اجلاس بلا لیا تھا تاکہ مذہبی تعلیمات کو جدید خاندانی نظام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے – رومن چرچ اور پوپ نے گزشتہ دنوں نظریہ ارتقاء کو بھی درست تسلیم کیا ہےاور یہ وہی نظریہ ہے جس کو پیش کرنے پر چرچ نے ڈارون کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عیسائیت کے خلاف ایک سازش قرار دیا تھا ۔
جہاں ایک طرف عیسائیت جدید دنیا کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی اپنی مقدور بھر کوششوں میں مصروف ہے ، تو دوسری طرف مسلم دنیا اپنے مذہبی رہنماؤں کی وجہ سے جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہے ۔حال ہی میں سعودی مفتی اعظم کا ‘ٹویٹر کو حرام قرار دینے کا فتوی’ ، ایران میں ریحانہ جباری کی پھانسی اور پاکستان میں مولانا شیرانی کے بیانات مسلم دنیا کے قدامت پسند مذہبی جمود کی نشاندہی کے لیے کافی ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم دنیا اپنے مذہبی ناخداؤں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔
مسلم معاشروں اور اسلام کی جدید دنیا کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے حوالے سے مستشرقین کی رائے یہی ہے کہ اسلام کے اندر جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی گنجائش نہایت کم ہے –خلافت اور اس کے عروج و زوال کے مصنف سر تھامس مور کے مطابق ‘عیسائی قومیں وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب، آزادی، سائنس اور فلسفے میں برابر ترقی کرتی جائیں گی لیکن اسلام جہاں کھڑا ہے ، وہیں کھڑا رہے گا’۔ اسی طرح کی پیشنگوئی فرانسیسی مفکر رینان نے بھی کی تھی جسکے مطابق ‘اسلام اور سائنس کبھی اکھٹے نہیں چل سکتے ۔’ مستشرقین کی رائے سے قطع نظر مسلم فکر میں جدت اور ترقی پسندی کی گنجائش دیگر مذہبی معاشروں سے زیادہ ہے۔اجتہاد کی گنجائش کے باعث مسلمانوں کے لیے یورپ کی بنسبت مسلم معاشروں کی تشکیل نو کہیں زیادہ آسان ہےلیکن معاشی پسماندگی اور قدیم معاشرت کے باعث جدیدافکار کی ترویج کا عمل متاثر ہوا ہے۔
مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ریاستی طور پر مذہب کی سرپرستی تمام اسلامی ممالک کر رہے ہیں یا یہ کہ مذہبی جنونی اپنے ذاتی عقائد کو اسلام کے غلاف میں لپیٹ کر ہر مسلمان ملک میں بیچ رہے ہیں ۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ترکی کا رجحان اسلامی نظام کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے مگر کئی سالوں تک ترکی ایک روشن خیال اسلامی مملکت کے طور پر ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے ، ماضی قریب میں ایسی ہی ایک مثال تیونس کی ہے جو اپنے لیے ایک متوازن آئین تشکیل دے چکا ہے۔
مستشرقین کی رائے سے قطع نظر مسلم فکر میں جدت اور ترقی پسندی کی گنجائش دیگر مذہبی معاشروں سے زیادہ ہے۔
اتاترک کے ترکی کی کامیاب مثال سامنے رکھتے ہوئے مسلم ممالک اب بھی مذہب اور ریاست کو علیحدہ کرسکتے ہیں۔اس ضمن میں پہلا قدم ان ممالک میں بسنے والی اقلیتوں پر مذہبی تشدد اور ان کے خلاف موجود امتیازی قوانین کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔پاکستان کے حوالے سے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہاں پر مذہبی علماء مذہب کی دقیانوسی تشریح میں مکمل آزاد ہیں اور مذہبی مدارس میں پروان چڑھائے جانے والی شدت پسند فکر پر کسی قسم کا ریاستی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ شدت پسند فکر اور مدارس فرقہ وارانہ اور مذہبی دہشت گردی کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔ وطن عزیز میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس کے لگ بھگ دہشتگرد تنظیمیں فعال ہیں اور متحدہ عرب امارت کی مرتب کردہ چھیاسی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں چھ پاکستانی تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔ایسی شدت پسند سوچ اور تنظیموں کی موجودگی میں پاکستان کا ایک فلاحی یاست بننا ممکن نہیں تاہم ریاست اور مذہب کی علیحدگی اور ملک میں بسنے والے تما م لوگوں کو زبان، نسل، رنگ اور مذہب کی تفریق کے بغیر تمام بنیادی انسانی حقوق برابری کی سطح پر مہیا کرنے سے یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے ۔


Originally published here

1 comment:

  1. جس طرح مضمون نگار نے بغیر کسی تحقیقی مواد کے شریعت کے درست مسائل پر تنقید کی ہے۔ یہ بات انتھائی قابل افسوس ہے

    یہ مضمون مکمل طور پر اس بات کی عکاسی کررہا ہے ۔ کہ مضمون نگار قرآن و حدیث کے علم سے بالکل پیدل ہے

    ورنہ مولانا کی بات پر رد کرنے کے لیے یا اپنی بات کی درستگی کے لیے کم از کم کوئی ایک حوالہ تو پیش کرتے

    میں جب اس طرح کے ذہنی طور پر نا پختہ اور دین اور مذہب سے اوارہ قسم کے لوگوں کو دیکھتا ہوں ۔تو بہت افسوس ہوتا ہے

    بحر حال میں ان کے لیے دعا ہی کرسکتا ہوں ۔

    ReplyDelete