Saturday, March 14, 2015

ملاله کی جیت

یہ صرف ملاله ہی کی جیت نہیں تھی – یہ تو صدیوں سے چلی ائی تمہاری پدرانہ نظام کی شکست بھی تھی جس میں تم نے سماج اور مذھب کے کندھوں کو استعمال کر کے عورت کو ادھا جنس قرار دیا ہے۔ –
تم بندوقوں سے لوگوں کو سلانے میں مصروف رہے اور وہ قلم کتاب تھام کر لوگوں کو جگانے میں مشغول رہی – تمہارا ہتھیار تمہارا خوف تھا اور اسکا کُل اثاثہ اسکی بے خوفی تھی – ایک ہی شہر کی گلیوں میں تم دونوں اپنے اپنے دھن میں مگن رہے – تم سکول اڑاتے رہے – وہ سکول کھولنے کی کوششوں میں شریک رہی – تم وقتی طور پر جیت گئے اور وہ ہمیشہ کے لئیے امر ہو گئی – تم ہار گئے – وہ جیت گئی۔-
تمہاری ہار کے بعد تمھارے ہمدرد میدان میں کود پڑے – انہوں نے بھی اسے شکست دینے کا عزم کیا – سو دلیلیں گھڑی گئیں- اسے قوم کے ما تھے کا داغ قرار دیا گیا – وہ ماتھا جسے تاریخ نے داغدار کیا تھا اسکی بدصورتی کا الزام اس عورت پر ڈال دیا گیا – اسے قومی عزت فروش بیٹی کا خطاب دیا – وہ قوم جس کی عزت پر بستیاں جلانے ، اقلیتیں پھڑکانے اور تیزاب پھینکنے سے حرف نہیں آتا مگر ایک عورت کےنوبل انعام جیتنے سے حرف آتا ہے۔

عورت تمہارا ازلی دشمن ہے – باغ عدن سے نکالنے سے لیکر معاشرے میں بے حیائی پھیلانے اور خاندان اور قبیلے کی عزت خاک میں ملانے کا سارا الزام تم نے اسی پہ ہی تو دھرا ہے – تمہارے مشہور فلسفی ارسطو نے بھی عورت کو اس لئیے عورت کہا کہ اسمیں کچھ ‘بنیادی نقائص ہیں’ – تمھارے افلاطون نے بھی دو وجوہات پہ ہی تو خدا کا شکر بجا لایا تھا – ایک یہ کہ ‘خدا نے اسے آزاد پیدا کیا’ اور دوسرا یہ کہ ‘اس نے اسے عورت تخلیق نہیں کیا’ – تھمارے ہی ایک مشہور عیسائی عالم تھامس آئیکونز نے عورت کے بارے فرمایا تھا کہ ‘وہ اس لئے کمتر ہے کہ اسمیں مرد کے مقابلے میں عقل اور شعور کی کمی ہے’ –

ساحرلدھیانوی نے تمہاری برادری کے بارے میں ہی تو کہا تھا کہ تم نے عورت کو جنم کے بدلے بازار دیا – سو ایک عورت کا نوبل جیتنا تمہاری مردانگی کیسے برداشت کر سکتی تھی – تم نے اپنی مردانگی کی شکست کا بدلہ اسے غلیظ قسم کے خطابات دے کر نکالنے کی مہم جاری رکھی – اسے یہودی ایجنٹ کہا – اسکے مقابلے میں عبدالستار ایدھی سے لیکر ڈاکٹر ادیب رضوی کا نام لے آۓ- وہ واویلا کیا ، وہ شور مچایا کہ عقل نادم رہ گئی – اوریا مقبول اور انصار عباسی سمیت تمھارے قبیلے کے سرخیلوں نے اسکی کتاب کے ہر سطر میں کفریہ جراثیموں کی موجودگی کا انکشاف کیا – اس عورت کے اپنے صوبے میں اسکی کتاب کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی – اسی صوبے میں اسے خراج تحسین پیش کرنے کی مخالفت ہوئی – اسے عالمی جنگ کا ایک مرکزی کردار گردانا گیا – اسکے اپنے باپ پر اس پر حملے کی منصوبہ بندی کے عظیم انکشاف کی سعادت بھی تمہیں حاصل ہوئی۔

یہ ہو تم ، یہ ہے تمہارا معاشرہ، یہ ہے تمہاری مردانگی اور یہ ہے تمہاری ذہنی کیفیت – تمہیں دکھ ملاله کے نوبل انعام جیتنے کا نہیں ہے – تمہیں دکھ اس بات کا ہے کہ تمہاری پدرانہ معاشرتی نظام کو ایسی بہادر عورتوں سے خطرہ ہے – عورت پر تمہاری گرفت خطرے میں ہے – ملاله خواتین کے لئے ایک رول ماڈل بن رہی ہے – اور ایک عورت کا رول ماڈل بننا تمہاری مردانگی کے خلاف ہے – عورت کی برتری کو نہ تم نے بینظیر اور عاصمہ جہانگیر کے کیس میں قبول کیا ہے اور نہ ملاله کے کیس میں کرو گے۔
اور ہاں مقابلہ سخت ہے – سو اپنی بندوقیں تیار رکھنا اور اپنے الفاظ کو اور کاٹ دار بنا لینا – تمہیں ایک عورت کو کمتر قرار دلانے اور اسے شکست دینے کا عظیم کارنامہ سر انجام دینا ہے – تم لا علاج ہو – تم پہ صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
چلتے چلتے علی زریون کا یہ شعر بھی سن لیجئیے!!

مجھے پسلی سے پیدا کرنے والے
ذرا آدم کی نظریں سیدھی کر دے

(Originally Published here)

No comments:

Post a Comment