Monday, April 30, 2012

اعتماد از جون ایلیا... انتخاب : مصطفی کمال



 میں کو ئی اور راۓ رکھتا ہوں اور تم کو ئی اور را ۓ رکھتے ہو- میں کسی اور جماعت کے ساتھ ہوں اور تم کسی اور جماعت کے ساتھ ہو- یہ کو ئی ایسی بات نہیں ہے جسے برا سمجھا جاۓ یا سمجھا جانا چا ہیے- یہ تو سچ کو تلاش کرنے کا ایک طریقہ ہے – میں سچ کو دا ئیں طرف تلاش کرتا ہوں اور تم با ئیں طرف – پر یہاں کا جو طور ہے، جو طور رہا ہے وہ عجب کچھ ہے- یہاں ایک دوسرے سے جدا را ۓ رکھنے کا مطلب ہے ایک دوسرے کا دشمن ہونا- ایک دوسرے پر کسی بھی معاملے میں اعتماد نہ کرنا-        
 کیا عقل و ہوش کی سلا متی اور سیاست کے یہی معنی ہیں- ایک جماعت کسی بھی معاملے میں دوسری جماعت پراعتماد کرنے کے لۓ تیار نہیں ہے- دونوں ایک دوسرے کو ملک کا دشمن اور قوم کا غدار خیال کرتے ہیں- ان دو لفظوں کے علاوہ اپنے حریف کے لۓ ہمارے پاس کوئی اور لفظ نہیں ہے-
     بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر گروہ یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کائنات کی سا ری اچھائییا ں اس کی جیبوں میں جمع ہو گئ ہیں، وہ اس زمین کا سب سے منتخب،محبوب اور برگزیدہ گروہ ہے اور تاریخ نے آج تک کا جو سفر طے کیا ہے، اس کی غرض و غایت ہی یہ تھی کہ اس منتخب،محبوب اور برگزیدہ گروہ کو اس دور کے حوالے کریں اور بس-
تم کون ہو اور ہم کون ہیں؟ اور ہما رے گمان، ہما رے خیال اور ہما رے را ۓ کی بھلا حقیقت ہی کیا ہے- تمھا رے ذہن کی کشکول میں اخر وہ کون سی دلیل ہے اور وہ کون سی حجت ہے جس کے توڑ کے لۓ ہما رے ذہن کے کشکول میں کو ئی دلیل اور کوئی حجت موجود نہ ہو- اور ہمارے ذہن کے کشکول میں آخر وہ کون سی دلیل اور وہ کون سی حجت ہے جس کے توڑ کے لۓ تہما رے ذہن کے کشکول میں کو ئی دلیل اور کوئی حجت موجود نہ ہو-
کیا ہما رے با طن سے یا تمھا رے باطن سے الہام کا کوئی رشتہ پایا جاتا ہے؟ ہم میں سے آخر وہ کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ ہم نے جب بھی سانس لیا ہے تو سچ میں سانس لیا ہے- ہم نے جب بھی سوچا سچ میں سوچا- سچ کے ساتھ سوچا اور اول سے آخر تک سچ ہی سوچا-
سوچو اور یہ سوچنے کی نیک عادت ڈالو کہ دوسرے جو کچھ سوچ رہے ہیں وہ بھی سچ ہو سکتا ہے- آسمان سے تم اترے ہو اور نہ تمھا رے حریف- تمہیں وجود میں لانے کے لۓ زمین اور آسمان نے اتنی ہی مشقت اٹھا ئی ہے جتنی مشقت تمھا رے حریفوں کو وجود میں لانے کے لۓ اٹھا ئی ہے-
ایسا کیوں ہے کہ تم کسی بھی را ۓ اور کسی بھی خیال کے بارے میں اپنے سوا کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کی کوئی بھی اہلیت نہیں رکھتے؟ ایسا کیوں ہے کہ سچ اور سچا ئی کو تم نے بس اپنی ہی دستاویز کا ایک گوشوارہ سمجھ رکھا ہے؟ اور میرا یہی سوال تمہارے حریف سے بھی ہے-
ایک ہی حق تو ہے جو تم بھی مانگتے ہو اور تمہارا حریف بھی مانگتا ہے اور وہ حق ہے، راۓ رکھنے اور اسے ظاہرکرنے کا- تم وہ راۓ رکھو جو تمہیں درست معلوم ہوتی ہے اور دوسروں کو وہ را ۓ رکھنے کی آزادی فراہم کرو جو انہیں درست معلوم ہوتی ہے اور تم دونوں اس معاملے پرایک دوسرے پراعتماد کرو کہ جو کچھ دوسرا کہہ رہا ہے وہ اس کی را ۓ ہے ریا کاری نہیں-
اگر یہ اعتماد باقی نہیں رکھا گیا اور اس معاملے میں بھی بے اعتمادی کو کام میں لا یا گیا تو پھر بولو اور بتا ؤ کہ پھررو ۓ زمین پراس بات کا فیصلہ آخر کون کرے گا کہ جو تمہارا خیال ہے وہ تو خیال ہے اور جو دوسرے کا خیال ہے وہ نیت کی خرابی اور خلل ہے- ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد کو کام میں لا ؤ اور پھر اپنے دلیل اور دعوؤں کی بساط بچھاؤ-
بحث ہونی چاہیے اور جاری رہنی چاہیے- شکوہ کس بات کا ہے، شکوہ اسی بات کا ہے کہ یہاں بحث نہیں ہوتی- ہم لوگ ابھی تک بحث کے خوگر نیہں ہوۓ ہیں- ہم تو بد گوئی اوربد بحثی کی عادت میں مبتلا ہیں-
بحث ذہن کی دانشمندانہ اور دانش جویانہ حالت کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہم ذہن کی دانشمندانہ اور دانش جویانہ حالت سے محروم ہیں- ہم جب تک ذہن کی اس حالت سے محروم رہیں گے اس وقت تک ہما رے اور سچائی کی خواہش کے درمیان کوئی رشتہ قائم نہیں ہو سکتا-
  

No comments:

Post a Comment