Monday, December 8, 2014

پاکستان کے مداری

جاوید چودھری پاکستان کے اردو صحافتی حلقوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا صحافی ہیں۔ فیس بک پیج پر ان کے چاہنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔جو واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نگار ہیں۔
چوہدری صاحب اسلامی نظام حیات کے داعی ہیں اور اس کے مساوات اور برابری کے زریں اصولوں کی ترویج کرتے ہیں ۔ جب بھی یورپ جاتے ہیں تو وہاں کی ترقی کو اسلا می نظام کا مرہون منت قرار دیکر مسلمانوں کی زبوں حالی پر آنسو بہاتے ہیں اور اس شعرکی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کویورپ میں ، تو دل ہوتا ہے سیپارہ

موصوف کے مطابق انہوں نے چودہ سو کی نوکری سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر ایک اخبار میں کالم لکھنے لگے۔ کالم لکھنے سے انہیں اتنا فائدہ ہوا کہ انہوں نےاپنے ایک بھائی کے لیے کمپنی کھول دی ۔ دوسرے سال موصوف نے دوسرے بھائی کےلیے بھی ایک کمپنی کی داغ بیل ڈال دی۔ دونوں بھائیوں کو کمپنی سونپنے کے بعد جناب دوبارہ کالم نگاری میں مصروف ہوگئے اور تاحال یہی شغل فرما رہے ہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا کالم نگاری سے اتنا پیسہ کمایا جا سکتا ہے کہ دو بھائیوں کے لئے کمپنی کھولی جا سکے ؟ یہی چوہدری صاحب اپنے ٹی وی شو زمیں سیاستدانوں کے اس بات پر لتے لیتے ہیں کہ وہ میریٹ ہوٹل میں قیام کرتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال وہ مڈبھیڑ ہے جو ان کی سینیٹر فیصل رضا عابدی سے ہوئی۔ چوہدری صاحب کے اس اعتراض پر پروگرام کے دوران عابدی نےانہیں مخاطب کرتے ہوۓ کہا “تم خود تو پچاس ہزار کی ٹائی پہنتے ہو اور مجھ سے میرے خرچے کا حساب مانگتے ہو ” ایک صاحب اگر کالم نگاری کر کے دو بھائیوں کے لئے کمپنی کھول سکتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک سیاستدان سیاست کرکے میریٹ ہوٹل میں قیام کر سکے اور ایک آدھ کمپنی کھول کے اس کا سربراہ بن جائے؟
موصوف طالبان کے کٹر حامیوں میں سے ہیں اور اوریا مقبول جان کی طرح پانچ سالہ طالبانی حکومت کو افغانستان کے سنہری ادوار میں شمار کرتے ہیں – موصوف ہر وقت قوم کے شاہینوں کو اخلاقیات کا درس دیتے رہتے ہیں ۔یہی اخلاقیات کے مبلغ کچھ عرصہ قبل اپنے ٹی وی کے دفترمیں اپنے ایک ساتھی اینکر پر بندوق لے کر حملہ آور ہوئے۔ اگرچہ یہ واقعہ پریس میں رپورٹ نہیں ہوا مگر کل تک پروگرام میں ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل نے اس بات پر چودھری کی خوب کلاس لے لی اور ان سے کہا کہ اخلاقیات کا جو سبق وہ دوسروں کو دے رہے ہیں وہ خود کو بھی اس سے بالاتر نہ سمجھیں
موصوف نے حال ہی میں ایک پروگرام مشرف کے کیسوں سے بری ہونے کے حوالے سے کیا – حیرت انگیز طور پر چودھری نے اپنے پروگرام میں مولانا عبدالعزیز کو مدعو کیا اور مولانا صاحب سے مشرف کے مستقبل پرتبصرے لیے۔موصوف کی علمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی پروگرام میں مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے یہ جھوٹا بیان داغ دیا کہ ستر کی دہائی میں جب خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تھا تو پاکستان آرمی کے تب کے بریگیڈیر مشرف نے خانۂ خدا کو قابضین سے چھڑوایا ۔ چودھری صاحب نے اس بیان پر سبحان اللہ کہنے کے بعد مشرف کو ایک اسلامی ہیرو قرار دیا اور مختصر سی بریک پر چلےگئے۔ وہ تو بھلا ہوا کہ بریک سے واپسی پر پاکستان آرمی کے ہی ایک اور ریٹائرڈ افسر نے اس واقعے کی تردید کر کے چودھری صاحب اور قصوری کی جہالت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
موصوف سائنس پر بھی بھرپور تبصرے فرماتے رہتے ہیں اور یورپ کی ایجادات و افکار کو مسلمانوں کی ذہنی کاوشوں کا چربہ قرار دیتے ہیں ۔ اپنے ایک آرٹیکل میں موصوف نے نیوٹن کے عمل اور ردعمل کے قانون کی جڑیں افغانستان میں پی جانے والی قہوہ اور اس کے بعد آنے والے پیشاپ میں ڈھونڈ نکالیں ۔اس آرٹیکل میں جناب لکھتے ہیں “نیوٹن زندگی بھر یہ حقیقت فزکس کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر افغان نیوٹن کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل نہ صرف اس حقیقت سے واقف ہو چکے تھے بلکہ یہ پیشاپ کو جواب چائے کا نام دیکر نیوٹن سے آگے نکل گئے ” ہمیں اس بات پر کسی قسم کا تعجب نہیں ہوتا جب مسلمان اس قسم کے دانشوروں کو پڑھ کر تمام ایجادات کو مسلمانوں کی مہربانی سمجھتے ہیں ۔
چوہدری صاحب شدّت پسندی اور جدّت پسندی میں حسین امتزاج پیدا کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے- موصوف نے حال ہی میں ملالہ پر ایک آرٹیکل لکھ ڈالا ۔ آرٹیکل میں موصوف نے  قادیانیوں کو پاکستان میں  مساوی شہری حقوق حاصل ہونے کا انکشافی دعویٰ کیا، جبکہ اسی آرٹیکل کے شروع میں ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی اور آئینی طور پر غیرمسلم ہونے کا طعنہ بھی دے لیا، اور ان کی ناقدری ہونے پر اپنے لوگوں کی علم دشمنی کا ماتم بھی کر لیا، اور یورپ کی علم دوستی اور جوہر شناسی کے گن گانے لگے۔
جاوید چودھری ، انصار عباسی، اوریا مقبول جان اور اس قبیل کے دوسرے خود ساختہ دانشور ہی اس ملک میں پھیلی کئی ایک بیماریوں کے متعدی جراثیم ہیں ۔یہ لوگ لاکھوں جوانوں کے اذہان کی پراگندگی کے ذمہ دار بن رہے ہیں۔شاید انہی
لوگوں کے بارے میں خلیل جبران نے کہا تھا “افسوس اس قوم پر جس کا فلسفی مداری ہو”۔

(Originally Published here)

No comments:

Post a Comment